Followers

Thursday, June 17, 2021

غزل: اٹھنا نقاب کا اسے مہنگا پڑا بہت




اٹھنا نقاب کا اسے مہنگا پڑا بہت
رشتہ جناب کا اسے مہنگا پڑا بہت

سب تتلیوں میں ایک وہ بد نام ہو گئی
بوسہ گلاب کا اسے مہنگا پڑا بہت

زنداں میں ساری عمر وہ جلتی ہی رہ گئی
آنا شباب کا اسے مہنگا پڑا بہت

دل توڑنا کسی کا بھی ہوتا ہے اک گناہ
قصہ ثواب کا اسے مہنگا پڑا بہت

پٹڑی کو دیکھنے گئی واپس نہ آ سکی
لہجہ نواب کا اسے مہنگا پڑا بہت

باتوں میں آ کے اس نے جسے دل دیا تھا وہ
شوقیں شراب کا اسے مہنگا پڑا بہت

رکھا تھا ایک خط کو جو اس نے کتاب میں
کُھلنا کتاب کا اسے مہنگا پڑا بہت

تحفہ جو پہلے دن کو ہی امجد دیا گیا
غنچہ گلاب کا اسے مہنگا پڑا بہت

(امجد علی)

No comments:

Post a Comment