اچا نک کو ئی ا پنے گھر کا رستہ بھول جاتا ہے
کہیں جاکر نظر کا جب بھی چشمہ بھول جاتا ہے
کوئی چنچل حسینہ پوچھتی ہے عمر جب اُس کی
وہ ماہ و سال کا ہر ا یک ہندسہ بھول جاتا ہے
کو ئی مُنہ پھیر کر اترا رہا ہے حُسن پر ا پنے
اُتارا ہی ا بھی تھا ہم نے صدقہ بھول جاتا ہے
حقیقی عشق میں جس د م تجلی کا م کر جا ئے
قلند ر ڈ و ب کر اُس میں یہ دُنیا بھو ل جا تا ہے
قد م ہو آ بلہ پائی میں جس کے چُو متی منز ل
سنہری گھاس پر چل کر وہ نقشہ بھول جاتا ہے
اچانک آسماں سے رحمتیں جب بھی ا تر تی ہیں
فقیرِ اس دم کہیں پر اپنا کا سہ بھو ل جا تا ہے
نکل کر گھونسلے سے پیٹ کی آ تش بُجھانے کو
کبوتر دیکھ کر د ا نے کو پھند ا بھو ل جاتا ہے
(پرویز مانوس )
No comments:
Post a Comment