نغمہ و رقص کے انجام سے ڈر لگتا ہے
پیار کی کوششِ ناکام سے ڈر لگتا ہے
سال بدلے تو کئی بدلہ نہ دل کا موسم
زندگی جس پہ لکھا جام سے ڈر لگتا ہے
روک لیتی ہے ہوا جلتے دئیے کو لیکن
تھام لے گر جو ہوا بام سے ڈر لگتا ہے
ہائے اُس شام جدائی کا ستم خیز سماں
اب کہ ڈھلتی ہوئی ہر شام سے ڈر لگتا ہے
بین کرتی ہے فضاء ہم ہیں ادھر شرمندہ
ہائے معصوموں کو آرام سے ڈر لگتا ہے
ہاتھ روٹی کے لیے بڑھتے نہیں ہیں مہوش
غیر کے دشنہ و دشنام سے ڈر لگتا ہے
(اُم فاطمہ-مہوش شفقت)
No comments:
Post a Comment