ہم خواب گلاب کی کیاری میں
کچھ ایسے پودے سینچیں گے
جو لوگوں کے گھر جاٸیں گے
تو ان میں تازگی لاٸیں گے
جو بام ودر مہکاٸیں گے
جو گھر کے سبھی مکینوں کو
اک جنت یاد دلاٸیں گے
ہم روشن سی دوکاں اندر
وہ پودے رکھ کر بیچیں گے
اک وعدے کے چند سکوں میں
اک آس کی تھوڑی قیمت پر
اک عہد کے تھوڑے حرفوں میں
یہ پھول یہ شجر یہ خواب سبھی
چاہو تو مفت بھی لے جاٶ
بس رنگوں کی آراٸش سے
اور سبزے کی زیباٸش سے
اک خوشبو بھری محبت سے
تم اپنے گھر آباد کرو
ہم تاجر اپنی خواہش کے
ہم گھاٹا کھانے آۓ ہیں
ہم یونہی سودا کرتے ہیں
گر لینا ہے تو لے جاٶ
ہم بیچ سکے تو بیچیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ازہر ندیم)
No comments:
Post a Comment