Followers

Saturday, July 3, 2021

غزل: لوگ سمجھے ہی نہیں بات کے پیرائے کو


 

لوگ سمجھے ہی نہیں بات کے پیرائے کو
اور غدّاری سے تعبیر کِیا رائے کو
***
بڑھ گئی دھوپ مگر آپ کی چھتری نہ کُھلی
مل نہ پایا کوئی مفہوم نیا سائے کو
***
کیا تعجب ہے اگر موت بھی آنکھیں پھیرے
کون سینے سے لگائے ترے ٹھکرائے کو
***
تُو تو پھر زندگی ہے ,موت بھی ہوتی گرچہ
میں نے خالی نہیں لوٹانا تھا گھر آئے کو
***
پیڑ کی چھاؤں تو سانجھی ہے اگر پیڑ نہیں
یہ مگر کون بتائے مرے ہمسائے کو
***
حرف کی شکل مرے درد کو ویسی نہ ملی
کیسے غزلا لے کوئی میر کے غزلائے کو
***
ایک موقع بھی ہے, مشروب نہیں محض حضور!
آپ سمجھے نہیں در اصل مری چائے کو
***
تم بھی کِن بے دلوں میں بیٹھ کے روئے ساگر !
یہ کہاں خرچ کِیا درد کے سرمائے کو
***
(مسعود ساگر)

No comments:

Post a Comment