Followers

Monday, May 31, 2021


 

مضطرب ہوں قرار دے مجھ کو
خودکشی کر کے مار دے مجھ کو
زندگی بات کرنا چاہتی ہے
ہونٹ اپنے ادھار دے مجھ کو
میں اذیّت کا استعارہ ہوں
میرے اندر اتار دے مجھ کو
جسم کی پُر تپاک خواہش ہے
آئینے سے گزار دے مجھ کو
پھر مری گردشوں کی وسعت ماپ !!
پہلے اپنا مدار دے مجھ کو
کر کے مٙس ہاتھ میرے عارض سے
التجا ہے ! نکھار دے مجھ کو
میں ترے ذائچے کی مٹّی ہوں
لاوجودی پہ وار دے مجھ کو
( گل جہان)

نظم: مجھے اب دور سے دیکھو (شاعر: ازہر ندیم)


 

مجھے اب دور سے دیکھو
مجھے اب فاصلوں کے پار سے سوچو
میں کوئی خواب ہوں نیندوں سے آگے کا
میں اک مہتاب ہوں اور آسمانوں کا مسافر ہوں
مجھے تم سہل مت جانو
میں صدیوں اور قرنوں کے لحن میں بات کرتا ہوں
مجھے اب وقت کا اک بھید سمجھو تم
میں اک عقدہ ہوں میرے راز کو بوجھو
مری قربت کے لمحے جا چکے سارے
مجھے اب اس زمانے میں کہیں کچھ اور ہونا ہے
مجھے اب دور سے دیکھو ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ازہر ندیم)

آخرش صحّرا نوردی کا یہ قصّہ لکھ دیا


 

آخرش صحّرا نوردی کا یہ قصّہ لکھ دیا
بے خودی میں آج پھر صحّرا کو دریا لکھ دیا
حرفِ حق لب سے نکلتے ہی کسی زنجیر کا
گردشِ ایام نے پیروں سے رشتہ لکھ دیا
(پرویز مانوس)

غزل: سُنا ہے اُسکی چوکھٹ پر، جلے چراغ ملتے ہیں شاعر: طارق اقبال حاوی


 

سُنا ہے اُسکی چوکھٹ پر، جلے چراغ ملتے ہیں
ابھی بھی منتظر ہے وہ، یہی سُراغ ملتے ہیں
فاصلے ہوں یا فیصلے ہوں، اُنہیں جُدا نہیں کرتے
جنکے مخلص محبت میں، دِل و دماغ ملتے ہیں
محبت کا اور رنجش کا، جہاں آغاز ثابت ہے
وہیں پر بات کرتے ہیں، چلو اُس باغ ملتے ہیں
لگ کے دامن پہ دِکھلائیں، حقیقی عکس رشتوں کا
بہت مانوس ہاتھوں سے ، ہمیں جو داغ ملتے ہیں
ہے حاوی مجھ پہ لازم یہ، میں اب عقاب ہو جاﺅں
کہ مجھ سے جو بھی ملتے ہیں، چشمِ زاغ ملتے ہیں
(طارق اقبال حاوی)

غزل: اِک ملاقات ہو شاعر: ذوالفقار علی ذُلفی


 

اِک ملاقات ہو
بس ترا ساتھ ہو
ہاتھ میں ہاتھ ہو
چاندنی رات ہو
آنکھ میں ہو خوشی
جب تری ذات ہو
وصل کی ہو گھڑی
خوب برسات ہو
عشق کی جیت ہو
حرص کی مات ہو
صرف میں ہی سُنوں
جب تری بات ہو
پیار ذُلفی فقط
دل کی سوغات ہو
( ذوالفقار علی ذُلفی)

وہی بے چہرگی ہے گھر میں یارو (ایک شعر)


 

وہی بے چہرگی ہے گھر میں یارو
وہی سناٹا اپنے درمیاں ہے
(اکرام الحق)

Friday, May 28, 2021

عشق کا اک رواج یہ بھی ہے (ایک شعر)


 

عشق کا اک رواج یہ بھی ہے
عشق کا ضابطہ نہیں ہوتا
(ثاقب تبسم ثاقب)

ہے چاندنی کے چاند کا بستر درخت پر (شاعرہ: سنگیت)


 

ہے چاندنی کے چاند کا بستر درخت پر
یوں سو رہی ہے چاندنی تھک کر درخت پر
بڑھتا ہی جارہا ہے پرندوں کا شور اب
اک حادثے کی آہٹیں سن کر درخت پر
پیڑوں کے مثل ہاتھ دعا کو اٹھا دیئے
جب بھی اچھالے لوگوں نے پتھر درختِ پر
یہ کیا ہوا کے گنبد و مینار چھوڑ کر ؟
چکّر لگا رہے ہیں کبوتر درخت پر
شاخوں نے برف اوڑھ لی، پتّے دبک گئے
چھانے لگا سرورِ دسمبر درخت پر
لگتی ہے اُسکے نام سے دل پر خراش اب
لکّھا تھا جس کا نام کھرچ کر درخت پر
(سنگیت)

ٹکرے ٹکرے ہوتا ہے (ایک شعر)


 

ٹکرے ٹکرے ہوتا ہے
پھر ہوتا ہے پورا چاند
(آصف آسی)

Thursday, May 27, 2021

دُعا ہے یہ میری خُدایا تُو سن لے


 

دُعا ہے یہ میری خُدایا تُو سن لے
مجھے نیک بندوں میں یارب تُو چُن لے
مجھے رستہ سیدھا دکھا میرے مالک
مرے خستہ دل کو جگا میرے مالک
گناہوں کے دلدل میں آ کے پھنسا ہوں
درِ یار پے میں فسردہ پڑا ہوں
تُو شاہِ جہاں ہے تُو رحمت سدا ہے
دکھانے کو تیرے مرے پاس کیا ہے
سدا گونجتی ہے یہاں ذکرِ تیرا
خودی کے نشے میں کروں شکرِ تیرا
اُجالا تو کر دے مری زندگی میں
فنا زندگی ہو تری بندگی میں
گناہوں سے یارب کرم مانگتا ہوں
ترا بندہ ہو کے اِرم مانگتا ہوں
کہاں جاؤں تیرے سوا کون میرا
ترا بول بالا تُو مالک تُو آقا
پڑا در پہ سر خم میں یاور جیا اب
گناہوں کی بخشش سے پاؤں خدا اب
(یاور حبیب)

عکس آنکھوں میں اتارے جا رہے ہیں


عکس آنکھوں میں اتارے جا رہے ہیں

اپنی قسمت سے خسارے جا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
کہنے کو کچھ بھی نہیں ہم میں بچا ہے
دن اشاروں سے گزارے جا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
ایک مدت سے وہی دکھ وحشتیں ہیں
جن کو مدت سے سہارے جا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
وہ ترے گاؤں کے رفتہ رفتہ اب تو
میری آنکھوں سے نظارے جا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
اس برس کو عام الحزں ہی نہ کہہ دوں
ایک اک کر کے پیارے جا رہے ہیں

(اُم فاطمہ-مہوش شفقت)

 (نعت شریف)

نبیؐ کا امّتی ہونے کی یہ جو نسبت ہے
زہے نصیب یہ نسبت ہی میری عزّت ہے

یہ کاروبار ازل تا ابد خسارہ نہیں
درود آپؐ پہ اللہ سے تجارت ہے
حضور! آپ نہ ہوتے تو ہم کدھر جاتے
''حضور! آپؐ کا اسوہ جہانِ رحمت ہے''

حضور! آپ پہ قربان ہوں مرے ماں باپ
حضور! بعدِ خدا آپؐ سے محبت ہے

گناہ گار، خطا کار ہوں مگر سرِ حشر
حضور! ایک نگاہِ کرم کی حاجت ہے

وہ ایک اِسم کھلا جس پہ وہ نوازا گیا
اس ایک اِسم پہ واری جہانِ جنّت ہے

گدا وہ شاہ سے بڑھ کے امیر ہے نازشؔ!
کہ جس کے پاس درِ مصطفیؐ کی دولت ہے

(شبّیر نازش)

Wednesday, May 26, 2021

"ادبی سفر" کے شاعری بلاگ میں خوش آمدید


 
"ادبی سفر" کے شاعری بلاگ میں خوش آمدید
www.adbi-safar.blogspot.com
===========================================

"ادبی سفر" ہمیشہ سے دورِحاضر کے شعراء و شاعرات خصوصا نئے شعراء کی شاعری کو "ادبی سفر" کے فیس بک پیج پر مناسب جگہ دیتا آیا ھے۔ اور یہاں ھر کلام کو
ڈیزائین کرکے پیش کیا جاتا ھے۔
آپکی محبت و پسندیدگی کو پیشِ نظر رکھتے ھوئے "ادبی سفر" کے نام سے ایک بلاگ شروع کیا ھے، جہاں پر فیس بک پیج کے ساتھ ساتھ یہاں بھی آپکی شاعری پوسٹ کی جائے گی۔
یہاں ویب سائیٹ (بلاگ) پر آپکی پروفائل بن جائے گی، جس میں پوسٹ ہونے والی آپکی تمام شاعری کا ذخیرہ آپکو ایک کلک پر ملے گا۔
===========================================
آپ اپنی شاعری ہمیں درج ذیل فسیبک پیج میں انباکس کر سکتے ہیں۔
https://www.facebook.com/adbisafar