مضطرب ہوں قرار دے مجھ کو
خودکشی کر کے مار دے مجھ کو
زندگی بات کرنا چاہتی ہے
ہونٹ اپنے ادھار دے مجھ کو
میں اذیّت کا استعارہ ہوں
میرے اندر اتار دے مجھ کو
جسم کی پُر تپاک خواہش ہے
آئینے سے گزار دے مجھ کو
پھر مری گردشوں کی وسعت ماپ !!
پہلے اپنا مدار دے مجھ کو
کر کے مٙس ہاتھ میرے عارض سے
التجا ہے ! نکھار دے مجھ کو
میں ترے ذائچے کی مٹّی ہوں
لاوجودی پہ وار دے مجھ کو
( گل جہان)
No comments:
Post a Comment