Followers

Monday, June 28, 2021

ہتھ وچ بھاویں تسبیح پھڑ لے سر تے پا لے کُلّا


ہتھ وچ بھاویں تسبیح پھڑ لے سر تے پا لے کُلّا
جا جا مسجد لوکاں سامنے ناں رکھ لے عبداللہ
”ہادی شاہ“ تینوں اجر نٸیں لبھناں اودھوں تک تو سن لے
جد تک تیرے عملاں تے ناں راضی ہویا اللہ
(س۔م۔ہادی)

Saturday, June 26, 2021

غزل: گلابوں سے بڑھ کے حسیں لگ رہی ہو



گلابوں سے بڑھ کے حسیں لگ رہی ہو
مجھے چاند کی تم جبیں لگ رہی ہو

یہ باتوں کی خوشبو یہ لہجے کا جادو
بڑی مجھ کو تم بہتریں لگ رہی ہو

خدا تم کو رکھے یوں ہی زندگی بھر
کہ اب جس طرح دِلنشیں لگ رہی ہو

تمہیں جس جگہ دل میں رکھا تھا میں نے
مجھے آج بھی تم وہیں لگ رہی ہو

بظاہر بہت دور اب مجھ سے ہو تم
مگر دھڑکنوں کے قریں لگ رہی ہو

تمہیں دیکھتا ہی رہوں دل یہ چاہے
کوئی مجھ کو ہیرا نگیں لگ رہی ہو

میں ذُلفی ہوں ویسے کا ویسا ہی اب تک
مگر تم مجھے وہ نہیں لگ رہی ہو

(ذوالفقار علی ذُلفی)

Thursday, June 24, 2021

قطعہ: جب مجھ سے ملنے میرے یار آئے گا




جب مجھ سے ملنے میرے یار آئے گا
تب ہی اس دل کو قرار آئے گا
میں منتظر راھونگا تا قیامت
کبھی تو اُسے مجھ پہ پیار آئے گا
(رانا التمش)

Wednesday, June 23, 2021

شعر: ماں ترے جیسی آج تک خوشبو



ماں ترے جیسی آج تک خوشبو
میں نے پھولوں میں بھی نہیں پائی
(حیدر زینبی)

غزل: غم کے ماروں سے نہ اُلجھا کرو یارو



غم کے ماروں سے نہ اُلجھا کرو یارو
ٹوٹے ستاروں سے نہ اُلجھا کرو یارو

جن کی بنیادیں نہ ھو مضبوط
اُن دیواروں سے نہ اُلجھا کرو یارو

جن کے پہلے سے ہیں ہزاروں دُکھ
اُن کے پیاروں سے نہ اُلجھا کرو یارو

جن کا دنیا میں نہیں ھے کوئی اپنا
اُن بے سہاروں سے نہ اُلجھا کرو یارو

جو ھوئے ھیں در بدر عشق میں میر
اُن بیچاروں سے نہ اُلجھا کروں یارو

(فتح میر احمدزئی)

قطعہ: پہلے میں نے اپنے سارے سپنے دیکھے


 

پہلے میں نے اپنے سارے سپنے دیکھے
سارے سپنوں کی تعبیر چرائی پھر
اُس نے بھی محبوب بنایا میرے پیچھے
میں نے بھی صحرا سے ہیر چرائی پھر
(اُسامہ طاہر)

Tuesday, June 22, 2021

شعر: بے خودی کا یہ کیسا عالم ہے


 
بے خودی کا یہ کیسا عالم ہے
نام اک جابجا لکھا میں نے
(ثاقب تبسم ثاقب)

غزل: اچا نک کو ئی ا پنے گھر کا رستہ بھول جاتا ہے


 

اچا نک کو ئی ا پنے گھر کا رستہ بھول جاتا ہے
کہیں جاکر نظر کا جب بھی چشمہ بھول جاتا ہے

کوئی چنچل حسینہ پوچھتی ہے عمر جب اُس کی
وہ ماہ و سال کا ہر ا یک ہندسہ بھول جاتا ہے

کو ئی مُنہ پھیر کر اترا رہا ہے حُسن پر ا پنے
اُتارا ہی ا بھی تھا ہم نے صدقہ بھول جاتا ہے

حقیقی عشق میں جس د م تجلی کا م کر جا ئے
قلند ر ڈ و ب کر اُس میں یہ دُنیا بھو ل جا تا ہے

قد م ہو آ بلہ پائی میں جس کے چُو متی منز ل
سنہری گھاس پر چل کر وہ نقشہ بھول جاتا ہے

اچانک آسماں سے رحمتیں جب بھی ا تر تی ہیں
فقیرِ اس دم کہیں پر اپنا کا سہ بھو ل جا تا ہے

نکل کر گھونسلے سے پیٹ کی آ تش بُجھانے کو
کبوتر دیکھ کر د ا نے کو پھند ا بھو ل جاتا ہے

(پرویز مانوس )

شعر: دلِ کافر تیرا اب قتل بھی واجب


 

دلِ کافر تیرا اب قتل بھی واجب
جسے تم پوجتے ھو وہ پتھر ھے
(فتح میر)

Monday, June 21, 2021

غزل: سُنا کے رنج و الم مجھ کو اُلجھنوں میں نہ ڈال


 
سُنا کے رنج و الم مجھ کو اُلجھنوں میں نہ ڈال
تھکن کا خوف مرے عزم کی رگوں میں نہ ڈال

میں اِس جہان کو کچھ اور دینا چاہتا ہوں
تو کارِ وقت کے پُر ہول چکروں میں نہ ڈال

ملول دیکھ کے تجھ کو، میں رُک نہ جاؤں کہیں
خدارا ! ہجر کی شدت کو آنسوؤں میں نہ ڈال

تری بھلائی کی خاطر مجھے اُتارا گیا
مجھے لپیٹ کے کپڑوں میں، طاقچوں میں نہ ڈال

یہ ہجرتیں تو مُقدّر ہیں اور مشغلہ بھی
تو بے گھری کے حوالے سے وسوسوں میں نہ ڈال

(شبیرنازش)

غزل: عاشقی دوریاں بڑھاتی ہے


 

عاشقی دوریاں بڑھاتی ہے
یہی ارمان سب جلاتی ہے

دیکھ کر دوزخ نما یہ حالت
تیری تصویر مسکراتی ہے

بنا کر منصور ِحال کا تم کو
پھر عشق ہی سولی چڑھاتی ہے

عاشقی رہ گزر ہو حب سے
غم کی آہو بھی چہچہاتی ہے

تو بتا اب یہ برداشت کیوں
عاشقی دل میں گھر بساتی ہے

ان پرندوں کو بھی دیکھا ہے
عاشقی نہنگ بھی رلاتی ہے

کہا تھا میر صاحب نے سیلان
عاشقی عزت پر گراتی ہے

(اتالیغ تَھم سیلان)

شعر: جیسے بہتا ہوا دریا صحرا میں بدل جائے


 

جیسے بہتا ہوا دریا صحرا میں بدل جائے
ایسے بنجر ہیں ہاتھوں کی لکیریں میری
(آصف آسی)

غزل: لگی ڈھلنے ہے پھر سے شام ساقی


 

لگی ڈھلنے ہے پھر سے شام ساقی
بنا کر دے ذرا اِک جام ساقی

پِلا وہ جام جو مدہوش کر دے
مِلے دل کو بھی کچھ آرام ساقی

چلا آیا ہوں تیرے پاس جو میں
نہیں مرنے سوا کچھ کام ساقی

نہ اُس کا اور نہ اپنا بنا میں
نہیں مجھ سا کوئی ناکام ساقی

یونہی گِر کے سنبھلنا سیکھنا ہے
سہارا دے مجھے نہ تھام ساقی

دَورِ عُسرت میں مجھ سے ہے گریزاں
اچھے وقتوں کا اِک ہم جام ساقی

ہے قاصر آج جو پہچاننے سے
ترکِ تعلق کے ہیں اقدام ساقی

بنا وہ مے جو ماضی کو بھُلا دے
میں دونگا جو بھی ہونگے دام ساقی

(طارق اقبال حاوی)

غزل: جلتی ہوئی شمع کو بجانے آ جا


 
جلتی ہوئی شمع کو بجانے آ جا
آ پھر سے میرا ساتھ نبھانے آ جا

میں ہس پڑا ہوں جو صدیوں سے رو رہا تھا یہاں
میرے لبوں کی پنکھڑی کو جلانے آ جا

تمام رات تیری یاد سے بھاگا ہوں دور
صبح کو پھر تو غمِ دل کو جگانے آ جا

خدا کے واسطے میں تھک چکا دنیا سے
مجھے عزابِ جہنم تو دکھانے آ جا

تجھے تو یاد ہے کس عشق کا میں طابع ہوں
میرے تو ذوق محبت کو اڑانے آ جا

وہ میرے رونے پہ ہنسی تیری جو نکلی
میری قسم ہے تجھے پھر تو مسکرانے آ جا

"ہادی" عشق کی نیّا جلا کہ آیا ہے
ڈوبتے بیڑے کو پتھر پہ چلانے آ جا

(س۔م۔ہادی)

Friday, June 18, 2021

نظم: میرے دوستا، میرے ساتھیا



میرے دوستا، میرے ساتھیا
مرے دلبرا، مرےراہبرا
توجا چکا ،نہیں جا چکا!
ہاں جا چکا، نہیں جا چکا
وہ جو خواہشیں تھیں مکینِ دل
وہ چلی گئیں
وہ جو رونقیں تھیں تمہی سے تھیں
وہ نہیں رہیں
وہ جو کونپلیں تھیں بہ شاخِ لب
وہ کھِلی نہیں
وہ جو بن چکا تھا سکونِ جاں
سکونِ جاں جا چکا
میری منزلیں، میرے راستے
تری کھوج میں گنوا دیے
ہے دکھ مگر اک بات کا
توُ کہاں گیا میرے با وفا؟
تو کہاں گیا میرے با وفا ؟
(لیاقت​᠎علی​᠎گمانؔ)

غزل: نغمہ و رقص کے انجام سے ڈر لگتا ہے


نغمہ و رقص کے انجام سے ڈر لگتا ہے
پیار کی کوششِ ناکام سے ڈر لگتا ہے

سال بدلے تو کئی بدلہ نہ دل کا موسم
زندگی جس پہ لکھا جام سے ڈر لگتا ہے

روک لیتی ہے ہوا جلتے دئیے کو لیکن
تھام لے گر جو ہوا بام سے ڈر لگتا ہے

ہائے اُس شام جدائی کا ستم خیز سماں
اب کہ ڈھلتی ہوئی ہر شام سے ڈر لگتا ہے

بین کرتی ہے فضاء ہم ہیں ادھر شرمندہ
ہائے معصوموں کو آرام سے ڈر لگتا ہے

ہاتھ روٹی کے لیے بڑھتے نہیں ہیں مہوش
غیر کے دشنہ و دشنام سے ڈر لگتا ہے

(اُم فاطمہ-مہوش شفقت)

نعت شریف: کیا تذکرہ کروں میں نبی کی حیات کا


** نعت رسول صلی اللہ علیہ و سلم **

کیا تذکرہ کروں میں نبی کی حیات کا
ذاکر ہے خود خدا مرے آقا کی ذات کا

ان کے طفیل رب نے بناکر یہ کائنات
مختار کردیا ہے انہیں کائنات کا

آقا کا یہ کرم بھی بڑا لا زوال ہے
ملتا رہے گا فیض سدا معجزات کا

نور نبی سے ملتی ہے عالم کو روشنی
صدقہ ہے یہ حضور کی ذات و صفات کا

فرمان مصطفی تو ہے ہر دور میں اٹل
کوئی بدل نہیں مرے آقا کی بات کا

آقا کی اس حدیث میں جینے کا ہے ہنر
خاموشی میں ہی رکھا ہے رستہ نجات کا

میرا جو نام ان کے غلاموں میں آگیا
احسان ہے علی پہ یہ آقا کی نعت کا

(پیر محمد علی نعیمی)

Thursday, June 17, 2021

غزل: اٹھنا نقاب کا اسے مہنگا پڑا بہت




اٹھنا نقاب کا اسے مہنگا پڑا بہت
رشتہ جناب کا اسے مہنگا پڑا بہت

سب تتلیوں میں ایک وہ بد نام ہو گئی
بوسہ گلاب کا اسے مہنگا پڑا بہت

زنداں میں ساری عمر وہ جلتی ہی رہ گئی
آنا شباب کا اسے مہنگا پڑا بہت

دل توڑنا کسی کا بھی ہوتا ہے اک گناہ
قصہ ثواب کا اسے مہنگا پڑا بہت

پٹڑی کو دیکھنے گئی واپس نہ آ سکی
لہجہ نواب کا اسے مہنگا پڑا بہت

باتوں میں آ کے اس نے جسے دل دیا تھا وہ
شوقیں شراب کا اسے مہنگا پڑا بہت

رکھا تھا ایک خط کو جو اس نے کتاب میں
کُھلنا کتاب کا اسے مہنگا پڑا بہت

تحفہ جو پہلے دن کو ہی امجد دیا گیا
غنچہ گلاب کا اسے مہنگا پڑا بہت

(امجد علی)

دوہے: تحفہ لیتے افسر بولا بات کو رکھنا راز



(دوہے)
*****

تحفہ لیتے افسر بولا بات کو رکھنا راز
آج کے دور میں بدل گیا ہے رشوت کا انداز

بیٹھ کے سرکاری کرسی پر جس نے کھائی کھیر
بچوں کو تعویذ بناکر پرچے بانٹے پیر

(پرویز مانوس)

Wednesday, June 16, 2021

شعر: ہوائے شام بھی مخمور ہوگئی دیکھو


 
ہوائے شام بھی مخمور ہوگئی دیکھو
گلاب تم سجائے جو اپنے بالوں میں
(اکرام الحق)

غزل: مری جاں یہ محبت میں کہاوت ہے محبت کی



مری جاں یہ محبت میں کہاوت ہے محبت کی
کہ شب بھر نیند نہ آنا علامت ہے محبت کی

محبت چیز ایسی ھے جسے محسوس کرتے ہیں
کوئی رنگ و نسل کوئی نہ صورت ھے محبت کی

کسی سے بھی کسی کو بھی کسی بھی وقت ہوتی ہے
کہ یکدم یار ہونے کی روایت ہے محبت کی

حسیں بھی ہے ہنرمند بھی مگر اک ہے خرابی بھی
مرے معشوق میں تھوڑی سی قلت ھے محبت کی

تجھے کھونے کا ڈر مجھ کو کسی ساعت نہ آئے گا
کہ جب تک میرے اس دل میں عقیدت ھے محبت کی

نہ تنہائی میں تنہائی نہ جلوے میں کوئی ہمت
میں حیراں ہوں محبت میں یہ حالت ہے محبت کی

محبت ہی محبت ہو ترانے ہی ترانے ہوں
مگر اے التمش اس میں ضرورت ہے محبت کی

(رانا التمش)

غزل : خواب آنکھوں سے سارے جدا ہو گئے


خواب آنکھوں سے سارے جدا ہو گئے
پیار جن سے کیا بے وفا ہو گئےِ

تجھ سے پہلے نہ دست دعا اٹھ سکا
تجھ کو دیکھا مجسم دعا ہو گئے

دیکھ لیجے محبت کی سرشاریاں
حسن کا آپ تو آئینہ ہو گئے

اک نظر تیری نظروں سے کیا مل گئی
آپ تو دل ربا, دلربا ہو گئے

(ثمینہ سید)

Tuesday, June 15, 2021

قطعہ: کون کریگا یہ عشق وشق.... پیار ویار


کون کریگا یہ عشق وشق.... پیار ویار
کون اٹھائے نخرے اور فرمائشیں ہزار
مجھے مجبور نہ کرو عشق کیلئے میر
مجھ سے تو نہیں ھوتا چھوڑو.... یار
(فتح میر احمدزئی) 

غزل: ہم خود کو تیرے پیار کا عادی بنا چُکے


ہم خود کو تیرے پیار کا عادی بنا چُکے
سوچوں پہ تیرے نام کی تختی لگا چکے

اب تو کِسی بھی زخم کو سہہ لیں گے ہنس کے ہم
اِس دل پہ ایک زخمِ محبت جو کھا چکے

ہم سے ہی دل کی بات بتائی نہ جا سکی
آنکھیں تو کِتنی بار وہ ہم سے مِلا چکے

ہم بِن اداس رہنے کی عادت ہے اب تجھے
کچھ لوگ تیرے شہر کے ہم کو بتا چکے

ذُلفی نہیں ہے اپنی بھی کوئی خبر ہمیں
اِس دل میں تیرے پیار کو ہم یوں بسا چکے

(ذوالفقار علی ذُلفی)

قطعہ: میری الفت کا صلہ دیتے ہیں


میری الفت کا صلہ دیتے ہیں
جام آنکھوں سے پلا دیتے ہیں
ہم فقیروں سے نظر ملا کے
درد نظروں سے مٹا دیتے ہیں
(بلال عزیز جواز)

غزل: رات کٹتی ہے مری عالمِ بے داری میں


رات کٹتی ہے مری عالمِ بے داری میں
مر نہ جاؤں کہیں اس وحشت و بیزاری میں

کوئی سرگوشیاں کرتا رہا شب بھر مُجھ میں
کوئی آواز تھپکتی رہی غمخواری میں

یاد یوں تو تری بے چین بہت کرتی ہے
ہاں مگر اچھی ہے یہ ہجر کی دُشواری میں

مُجھ کو بھی مل نہ سکی اس کی علالت کی خبر
دیکھنے وہ بھی نہ آیا مُجھے بیماری میں

چند ہی لوگ مرے حلقہء احباب میں ہیں
اور وہ لوگ بھی ملتے ہیں رواداری میں

اس کو بھی اور کوئی کام نہیں آتا تھا
ہم بھی بس عشق ہی کر پائے ہیں بےکاری میں

نیند روتی رہی جلتی ہوئی آنکھوں میں حِنا
اور مرے خواب رہے محو عزاداری میں

(حنا کوثر)

ایک شعر: ہماری خواہشوں کا خوں کہیں پر تو ہوا ہے


 
ہماری خواہشوں کا خوں کہیں پر تو ہوا ہے
فلک بھی اِس پہ روئے گا زمیں پر جو ہوا ہے
(اُسامہ طاہر)

غزل: ڈھلنے والا ہے غم کا سورج اب


 

ڈھلنے والا ہے غم کا سورج اب
اِک نئی صبح آنے والی ہے
(حیدر زینبی)

Sunday, June 13, 2021

پنجابی کلام: حق دا نعرہ وَجنا حق اے


 

حق دا نعرہ وَجنا حق اے
ظالم اَگے گجنا حق اے

چُپ جے سادھی جابر اَگے
تِیر تینوں وی وَجنا حق اے

یتیماں دا جے پِنڈا ڈھکیا
فیر تیرا وی سجنا حق اے

گیم شو وِچ کاراں ونڈن
دِھی ماڑے دی کجنا حق اے

گوانڈھی جے نہیں بھُکھے سُتے
بندیا تیرا رجنا حق اے

جے توُں ماپے راضی رکھے
سجناں دا وی سجنا حق اے

مار کے بندیا حق کسے دا
جے کریں تُوں حج، ناحق اے

(طارق اقبال حاوی)

غزل: پہچان اپنی مٹائے پھرتا ہے

پہچان اپنی مٹائے پھرتا ہے
ہر شخص چہرہ چھپائے پھرتا ہے

ہے حسن اس کا کہ جادو ہے کوئی
ہر ایک کا دل چرائے پھرتا ہے

جو دیکھتا ہے اسی کا ہوتا ہے
وہ حشر سر پہ اٹھائے پھرتا ہے

یہ عشق بھی ہے عجب اس دنیا میں
یہ ناچ سب کو نچائے پھرتا ہے

دشت و مکاں ہیں کیا اس کے آگے
فلک و زمیں بھی ہلائے پھرتا ہے

اے عشق تیرے کیا کہنے، مجھ سے
مُردوں کو بھی تُو جگائے پھرتا ہے

ہے آج تیرے کیا جی میں آئی
رخ سے تو پردہ ہٹائے پھرتا ہے

یہ حوصلہ ہے مرے ہی تو دل کا
جو بوجھ تیرا اٹھائے پھرتا ہے

ہاں! درمیاں کن فکاں کے بھی خالد
وہ ایک دنیا بسائے پھرتا ہے

(ابنِ خالد)

Saturday, June 12, 2021

شعر: تیرے جیسا سونا تھا

 تیرے جیسا سونا تھا
آسی جب بھی اترا چاند
(آصف آسی)

غزل: شبنم میں بھیگا بھیگا گُلاب تیرا چہرہ


 

شبنم میں بھیگا بھیگا گُلاب تیرا چہرہ
سارے جہاں سے جاناں لاجواب تیرا چہرہ

تجھے دیکھنے کو ترسیں جاناں میری نگاہیں
ہے میری آنکھوں کا خواب تیرا چہرہ

اہل حُسن کی وادیوں میں اے حسیں
ہے سب سے دلنشیں نایاب تیرا چہرہ

لاکھوں دلوں کو تُم نے کر دیا سحرذدہ
ہے دلکشی کی اعلٰی کتاب تیرا چہرہ

پھول کلیاں تتلیاں بھی ہیں تم پہ نثار
ہے اِس قدر ترو تازہ شاداب تیرا چہرہ

میں نغمے غزلیں تُم پہ لکھتا رہوں گا
ہے شرط سامنے ہو جناب تیرا چہرہ

ارے دھڑکنیں نہیں سنبھالی جاتی کاشف غفاری
کر دیتا ہے اس قدر بیتاب تیرا چہرہ

(کاشف غفاری)

غزل: بن تری دید کے کس طرح گزارہ ہو گا


 

بن تری دید کے کس طرح گزارہ ہو گا
تو نہ ہو گا تو مجھے کس کا سہارا ہو گا

آ! گلے مِل کے ابھی ہجر کا ماتم کر لیں
کس کو معلوم؟ کہاں میل دوبارہ ہو گا

یا تری دید کی خواہش نے چمک بخشی ہے
یا رہِ خاک نے چہرے کو نکھارا ہو گا

آج کس منہ سے گلہ کرتے ہو لُٹ جانے کا
میں نا کہتا تھا محبت میں خسارہ ہو گا

ہر نئے سال یہاں بانس نئے اُگتے ہیں
اِس جگہ دفن کوئی درد کا مارا ہو گا

زندگی عجز کے لمحوں میں گزارو اپنی
وقت کے شاہ بنو گے تو خسارہ ہو گا

(شبیرنازش)

Friday, June 11, 2021

نظم: ہم بیچ سکے تو بیچیں گے


ہم خواب گلاب کی کیاری میں
کچھ ایسے پودے سینچیں گے
جو لوگوں کے گھر جاٸیں گے
تو ان میں تازگی لاٸیں گے
جو بام ودر مہکاٸیں گے
جو گھر کے سبھی مکینوں کو
اک جنت یاد دلاٸیں گے
ہم روشن سی دوکاں اندر
وہ پودے رکھ کر بیچیں گے
اک وعدے کے چند سکوں میں
اک آس کی تھوڑی قیمت پر
اک عہد کے تھوڑے حرفوں میں
یہ پھول یہ شجر یہ خواب سبھی
چاہو تو مفت بھی لے جاٶ
بس رنگوں کی آراٸش سے
اور سبزے کی زیباٸش سے
اک خوشبو بھری محبت سے
تم اپنے گھر آباد کرو
ہم تاجر اپنی خواہش کے
ہم گھاٹا کھانے آۓ ہیں
ہم یونہی سودا کرتے ہیں
گر لینا ہے تو لے جاٶ
ہم بیچ سکے تو بیچیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ازہر ندیم)
 

Thursday, June 10, 2021

غزل: میرے پیکر میں تیری ذات کی تنصیب لازم ہے


میرے پیکر میں تیری ذات کی تنصیب لازم ہے
بہت بکھرا ہُوا ہوں میں، اور اب ترتیب لازم ہے

عجب وادی ہے وحشت کی، اَٹی ہے دُھول نفرت کی
گھر کو گھر بنانے کو، نئی ترکیب لازم ہے

مدھر سے راگنی گائیں، چلو کہ جام چھلکائیں
میرے گھر میں ہو آئے تم، کوئی تقریب لازم ہے

جہاں پر چار ذہنوں میں، بھرا شر ہو، کدورت ہو
تو ہو لاحق قبیلے کو، کوئی تخریب لازم ہے

میری برہم مزاجی کا، نہیں مطلب میں ایسا ہوں
وہاں میں جُھک کے مِلتا ہوں، جہاں تہذیب لازم ہے

کرو تقسیم تم حاوی، سدا خیر و محبت ہی
کہ اب اِس دَورِ نفرت میں، یہی ترغیب لازم ہے

(طارق اقبال حاوی)

غزل: ترے نام اے حسن ماہتاب دل


ترے نام اے حسن ماہتاب دل
میں امشب لکھوں ایک طلائی غزل

تری آنکھ کے ہر رمز کے عوض
وفا سے ہے دل پر سجائی غزل

جو جُنبش ہوئی سُرخ لب کو ترے
میں نے ادب سے سنائی غزل

خراماں ہوا میں یہ ہاتھوں کے ناز
نمائش ہے جیسے حنائی غزل

نرالا ترا نام اے جان جاں
لو برکت سے اسکے بنائی غزل

(اقبال خان عُزیر)

نظم: شکوہِ احباب شاعر: یاور حبیب


اگر اپنے دغا دیتے
ستارہ بُجھ گیا ہوتا!
کنارا کر دیا ہوتا
مگر افسوس کی خوشبو
مرے اب ساتھ چلتی ہے
مجھے تنہا نہیں چھوڑا
تری یادیں
وہی باتیں
مچلنے لگ گئیں ایسے
کہ جیسے رقص کرتے ہیں
مجھے دار و رسن پر اب
سرِ نو کھینچ کر جیسے
میری تقدیر کے پُرزے
ہوا میں اُڑ گئے ہوتے
(یاور حبیب)


ترے اعمال فرعونی تجھے آخر ڈبو دیں گے
ہو کر موسیٰ پیغمبر سا سمندر سے گزر ہنس کے
سبق لے عشق کرنے کا خلیل اللہ پیغمبر سے
زمانہ کر حریف اپنا جلے شعلوں پہ چڑھ ہنس کے
(لیاقت​᠎علی​᠎گمانؔ)


 
تمہارے حُسن کے دِلکش نظارے مار دیتے ہیں
کبھی گیسُو کبھی عارِض تمہارے مار دیتے ہیں
ہے تیری مسکراہٹ کا اثر اپنی جگہ لیکن
ہمیں تیری نِگاہوں کے اِشارے مار دیتے ہیں
بڑے معصُوم ہیں قاتل ہمارے مار کے ہم کو
وہ کہتے ہیں مقدر کے ستارے مار دیتے ہیں
ہمارے درد رہتے ہیں ہمیشہ بے اثر ہم پر
بہاٶ مت ہمیں آنسو تمہارے مار دیتے ہیں
کہاں دُشمن میں دَم اتنا ہمارے ساتھ ٹکرائے
ہمیں تو چاہنے والے ہمارے مار دیتے ہیں
محبت کرنے والوں کے مقدر بھی نرالے ہیں
جو بچ نِکلیں بھنور سے تو کنارے مار دیتے ہیں
کہاں سے درد لاتا ہے غزل میں اِس قدر ذُلفی
تری غزلیں ترے اشعار سارے ٫ مار دیتے ہیں
(ذوالفقار علی ذُلفی)


مری مٹ گئی ہے طلب آج کے بعد
 منانا نہیں تم کو اب آج کے بعد

نظر نیچے رکھ کر گزر جانا ہے مجھ کو
محبت کا ہے یہ ادب آج کے بعد

مہک ڈھانپ لے گی مجھے یار لفظوں کی
مری دوست ہوں گی کتب آج کے بعد

یہ آنکھیں تمہاری بہت کچھ چھپاتی ہیں
لگائیں گے ان میں نقب آج کے بعد

کہاں ہو گی روشن ترے جانے کے بعد
اندھیری رہے گی یہ شب آج کے بعد

(اُسامہ طاہر)

Wednesday, June 9, 2021


 یاد آتے ہو اس طرح اکثر
مندروں میں چراغ جلتے ہیں
(اکرام الحق)

Tuesday, June 8, 2021

شعر: میرے پیکر میں تیری ذات کی تنصیب لازم ہے


 میرے پیکر میں تیری ذات کی تنصیب لازم ہے بہت بکھرا ہُوا ہوں میں، اور اب ترتیب لازم ہے (طارق اقبال حاوی)

غزل: جلوہ ءِ یار سے مخاطب ہوں


جلوہ ءِ یار سے مخاطب ہوں
یعنی تلوار سے مخاطب ہوں زہر اُگلتا ہے مسکرا کر جو
ایسے فنکار سے مخاطب ہوں
ہو نہ جائے کہی یہ دل مجروع
شوخ گفتار سے مخاطب ہوں
منتظِر ہوں جواب مِل جائے
جبکہ دیوار سے مخاطب ہوں
میں بھی پاگل ہوں یار شاہد شاذ
کیسے بیکار سے مخاطب ہوں
(شاہد شاذ)

غزل: تیرے ستم اور اپنی ویرانی لکھتا ہوں


تیرے ستم اور اپنی ویرانی لکھتا ہوں
شام و سحر یہی اب کہانی لکھتا ہوں

ہرگز نہیں بھولا تیرا بدل جانا
ماضی کے قصے مہنہ زبانی لکھتا ہوں

کل تک ناز تھا مجھے محبتوں پہ
اب اسے اپنی نادانی لکھتا ہوں

دنیا عشق کو کچھ بھی کہتی رہے
میں تو اسے مصیبت پریشانی لکھتا ہوں

بےلوث وفاؤں کو اپنی کتابوں میں
وقت کی اچھی خاصی رائیگانی لکھتا ہوں

حسن ادا اور شیریں گفتگو کو
بےوفاؤں کی خاص الخاص نشانی لکھتا ہوں

شعر و سخن نغمہ گری پیشہ تو نہیں
جب غموں کی ہو روانی لکھتا ہوں

محبت کا نام تو خواہ مخواہ رُسوا ہوا
ہجر کو اپنوں کی کارستانی لکھتا ہوں

میرا اجڑا دل اپنے محسن نہیں بھولا
حسن عشق ہجر کی ساری مہربانی لکھتا ہوں

کوئی مسلہ نہیں چاہے فنا ہو جاؤں میں
تیرے نام یہ انمول زندگانی کرتا ہوں

آج بھی اپنی ڈائری میں کاشف غفاری
اسے اپنے سپنوں کی مہارانی لکھتا ہوں

(کاشف غفاری)

غزل: رات کا پہر........... ٹل گیا کیسے

 

رات کا پہر........... ٹل گیا کیسے
شب میں سورج نکل گیا کیسے

دیر تک سوچتی رہی ہوں میں
وہ اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدل گیا کیسے

کل تلک ...... . اختیار تھا دل پر
آج یہ دل .........مچل گیا کیسے

وہ جو تھا ......تنگ قافیے جیسا
بن وہ میری........ غزل گیا کیسے

دیکھ پتھر مزاج ........چاہت میں
موم جیسا........... پگھل گیا کیسے

سست رو تھا وہ سب کو حیرت ہے
سب سے آگے ..........نکل گیا کیسے

میری نسبت پہ ناز تھا جس کو
میری شہرت سے جل گیا کیسے

درد خود سے بھی جو چھپانا تھا
شاعری میں ۔۔۔۔وہ ڈھل گیا کیسے

دل میں برسوں قیام تھا جس کا
آستیں میں .....وہ.... پل گیا کیسے

(ماہناز)